Jaalay By Saira Ghaffar

Saira Ghaffar
5 min readJun 5, 2021

Short Urdu Online Complete Story

Jaalay By Saira Ghaffar

Short Urdu Online Complete Story

جالے

(سائرہ غفار)

پچھلے تین سال سے وہ میری ذات کے جالے صاف کرتی آرہی تھی۔ کیوں؟ کیونکہ اسے مجھ سے محبت تھی…… اور مجھے؟؟؟ جی نہیں ……میں نے اپنی پہلی ناکام محبت کے بعد سے اپنے دل کی بستی کو ویران حویلی بنا ڈالا تھا جہاں جالے لگ چکے تھے۔ میرا رویہ ترش ہوگیاتھا۔ میں خاصا بدمزاج اور اکھڑ آدمی مشہور تھا مگر پھر بھی اس نے میرا ہاتھ تھام لیا۔ وجہ؟؟؟ وہی نگوڑ ماری محبت…… جو بس اسی کو تھی…… مجھے تو اس لفظ محبت سے ہی نفرت ہوچکی تھی۔ اور اب جبکہ وہ پچھلے تین سال سے میری ذات کے جالے صاف کرتی چلی آرہی تھی تو کچھ کچھ عادت مجھے بھی اس کی ہوہی چلی تھی۔۔۔ کیا کہا اظہار؟؟؟ ارے چھوڑو میاں کیا اظہار وظہار کرنا…… کون سا میں نے اسے کہا تھا یہ سب کرنے کو…… لیکن یہ سچ ہے کہ اس نے میری بے کار بے رنگ زندگی میں رنگ بھر دئیے ہیں۔ اور دل چاہتا ہے کہ اس کا ہاتھ تھام کر ایک لمبی واک پہ جاؤں۔ پھر کیا؟؟ گیا تھا ناں کل رات میں اس کے ساتھ واک پہ…… پھر کیا ہوا؟؟؟ پھر ہوا یوں کہ مجھے وہ نظر آگئی…… وہی میری پہلی محبت…… جسے بے تحاشا چاہا تھا۔لیکن اسے دیکھ کر میرے دل میں بالکل بھی ہلچل نہیں ہوئی۔ میں نے بے اختیار اپنے دل پہ ہاتھ رکھ کر بے خودی کی سی کیفیت میں اپنے سینے میں د ل کے مقام کو دیکھا…… میری اپنی ہی آنکھوں میں میرے لئے بے یقینی تھی…… مجھے اپنے دل کی دھڑکنوں پہ یقین نہیں آرہاتھا۔ میں نے ایک نظر اپنی شریک حیات کو دیکھا جو خاموشی سے میرے ساتھ قدم سے قدم ملاتی چل رہی تھی۔ اسے دیکھتے ہی میرے دل میں اتھل پتھل سی ہونے لگی۔ یہ کیا ہورہاتھا؟ کیا مجھے اس سے محبت ہوگئی ہے؟ نہیں ……بلکہ…… اس کی محبت نے میرے دل میں گھر بنالیا ہے…… اس کی لازوال محبت ……بلکہ بے لوث محبت نے مجھے تسخیر کر لیا تھا…… تین دن بعد اس کی سال گرہ تھی……میں نے سوچا اس دن میں اس سے اپنی محبت کا اظہار کروں گا…… تین دن میں نے ایک ایک لمحہ گن گن کر گزارا…… ایسا لگتا تھا جیسے میرے بیڈ پہ کسی نے کیکٹس بچھا دئیے ہوں۔ اللہ اللہ کر کے آخر کار تین دن گزر گئے اور اس کی سالگرہ کا دن آگیا۔ آفس سے واپسی میں میں نے ا سکے لئے سونے کے کنگن خریدے۔میں اسے سرپرائز دینا چاہتا تھا۔ اس لئے گفٹ باکس میں ڈال کر آخری دراز میں بالکل اندر کر کے رکھ دیئے۔ فریش ہو کر میں کمرے میں ادھر ادھر ٹہلتا ہوا پچھلے پورے دس منٹ سے پورے ہوش و حواس میں اور بے صبری کے ساتھ اس کا انتظار کررہاتھا۔آج مجھے شدت سے اس بات کا احساس ہورہاتھا کہ انتظار کس قدر تکلیف دہ اورکٹھن مرحلہ ہے۔اس نے تو پورے تین سال انتظار کی سولی پہ لٹک کر گزارا کیا تھا۔ پورے تین سال یعنی کہ پورے ایک ہزار اور پچانوے دن، چھبیس ہزار دو سو اسی گھنٹے اورپندرہ لاکھ چھہتر ہزار آٹھ سو سیکنڈ……اف حساب لگاتے لگاتے میری انگلیاں دکھنے لگیں۔ اف کتنی تکلیف سے گزری ہوگی وہ…… میں اس کا مداوا تو نہیں کرسکتا بہرحال پھر بھی پوری کوشش کروں گا۔ ابھی مجھے اس کا انتظار کرتے ہوئے پورے پندرہ منٹ گزر چکے تھے اور برابر میں ہی کچن تھا۔اس دن میری بہن کے سسرال والے دعوت پہ آرہے تھے۔ اس لئے وہ دعوت کی تیاری کر رہی تھی۔ وہ مسلسل کام کاج میں مصروف تھی اور میرا بس نہیں چل رہاتھا کہ اس کا ہاتھ پکڑ کے لے آؤں اور اپنے سامنے بٹھا کر حال دل بیان کردوں۔اسے بتادوں کہ اس کا وحشت ناک خوف ناک انتظار ختم ہوگیاہے۔ میں اس کا ہاتھ تھام کر اس سے کہنا چاہتا تھا کہ میرے دل کی صفائی کی جو مہم اس نے شروع کی وہ پوری ہو گئی تھی۔ میرے دل کے سارے جالے صاف ہوچکے تھے۔ میرا دل اب بالکل پاک صاف ہوچکا تھا۔ایک واحد کی محبت کے لئے…… میرے دل کی ایک ایک آرٹری ایک ایک وین بس اسی کے گن گارہی تھی۔ میں نے اپنے دل کی مسند پہ ایک عالیشان تخت بچھا دیاتھا ایک شاہی تخت جس پہ وہ پورے استحقاق اور طمطراق سے براجمان ہوکرمجھ پہ کسی ملکہ کی طرح بلا شرکت غیرے حکومت کرسکتی تھی۔ لیکن توبہ یہ انتظار…… اسی لمحے اطلاعی گھنٹی بجی اور ایک تیز آواز گونجی ارے یہ تو اسی کی چیخ ہے…… میں باہر دوڑا تھا لیکن دو نقاب پوش آدمیوں نے لاؤنج میں ہی میرا راستہ روک لیا۔ ایک نے میرے منہ پہ زور دار تھپڑ مارا:”نکال کنگن……کنگن نکال……“ وہ دروازے کے پاس خون میں لت پت تڑپ رہی تھی……میری آنکھیں اس پہ گڑ گئیں تھیں ……وہ مجھے وحشت زدہ آنکھوں سے دیکھ رہی تھی اور نقاب پوش ڈاکو میرا گلا پکڑے کھڑا تھا……میں سانس لینے کی کوشش میں اس کا ہاتھ ہٹانے کی کوشش کرر ہا تھا ……اس آدمی نے مجھے گلے سے پکڑ کر دیوار کے ساتھ لگا کر اوپر اٹھالیا ……میرے پیروں نے زمین چھوڑ دی تھی……اور میری آنکھوں کی پتلیاں اوپر ہوگئیں تھیں۔ دوسرا ڈاکو باقی گھر والوں کو ایک جگہ جمع کر کے ان پہ پستون تانے مستعد کھڑا تھا۔گھر میں صرف میں ہی واحد مرد تھا باقی سب خواتین اور بچے تھے۔ ڈاکو نے مجھے ایک جھٹکے سے زمین پہ دے مارا۔میں کھانستا ہوا نیچے گر پڑا۔ اس نے مجھے گریبان سے پکڑ کر اٹھایا اور پھر سے کنگنوں کا تقاضا کرنے لگا۔ میں نے کمرے کی طرف اشارہ کیا تو وہ مجھے کالر سے گراتا گھسیٹتا ہوا کمرے میں پہنچا۔ میں گرتا پڑتا دراز تک پہنچا اور اسے وہ گفٹ باکس نکال کر دیا۔ ڈاکو نے بے دردی سے گفٹ کھول کر دیکھا اور باکس وہیں پھینک کر کنگن اپنی جیب میں ڈال لئے۔اس نے دوسرے ڈاکو کو پستول سے اشارہ کیا اور باہر کی طرف جانے لگا۔ میں کمرے کے دروازے تک گرتا پڑتا پہنچا اور بے اختیاری میں ڈاکو کا پاؤں پکڑ کر اسے روکنے کی ناکام کوشش کی…… ڈاکو نے مڑ کر مجھے دیکھا اور اپنی پستول کا ایک زور دار بٹ میرے سر پہ مارا اور میں نے اپنی بند ہوتی ہوئی آنکھوں سے خون سے لت پت اپنی شریک حیات کو سانس کا بندھن ہمیشہ کے لئے توڑتے ہوئے دیکھا…… میں نے اسے مرتے ہوئے دیکھا تھا…… اپنے انتظار کو سولی چڑھتے ہوئے دیکھاتھا…… میں نے محبت کو نوحہ پڑھتے دیکھا تھا…… میں نے دل کو مرثیہ گاتے سناتھا…… ہاں میں نے دل کے جالے تو صاف کر لئے تھے……تخت بھی بچادیاتھا مگر……مگر میں ملکہ کو نہیں بچا پایاتھا۔ میں اپنی ریاست کو لٹنے سے نہیں بچا پایا…… میرے دل میں پھر سے جالے لگنا شروع ہوگئے ہیں۔ ……………………

--

--